جب تو پیدا ہوا کتنا مجبور تھا
یہ جہاں تیری سوچوںسے بھی دور تھا
ہاتھ پاؤں بھی تب تیرے اپنے نہ تھے
تیری آنکھوں میں دنیاں کے سپننے نہ تھے
تجھ کو آتا جو صرف رونا ہی تھا
دودھ پی کے تیراا کام سونا ہی تھا
تجھ کو چلنا سیکھایا تتھا ما نے تیری
تجھ کو دل میں بسیا تھاا ماں نے تیری
ما کے سائے میں پپروان چڑھنے لگا
وقت کے ساتھ قد تیرا بڑھنے لگا
دھیرے دھیرے تو کڑیل جوان ہو گیا
تجھ پہہ سارا جہاں مہرباں ہو گیا
زور بازو پہ تو بات کرنے لگا
خود ہی سجنے لگا خود ہی سورنے لگا
ایک دن اک حسینہ تجھے بھا گئ
بن کے دلہن وہ پھر تیرے گھر آگئ
فرض اپنے سے تو دور ہونے لگا
بیج نفرت کا خود ہی بونے لگا
پھر تو مں باپ کو بھلانے لگا
تیر باتوں کے پھر تو چلانے لگا
بات بے بات ان سے تو لڑنے لگا
قاعدہ اک نیا پھر سے تو پڑھنے گا
ید کر ماں نے تجھ سے کہا تھا ایک دن
اب ہمارا گزارہ نہیں تیرے بن