رخصت کے وقت کس کے بہکنے لگے قدم
قائم نہ رہ سکا تیرے پندار کا بھرم
گلشن میں جتنے پھوُل کھلے، زخم بن گئے
خُونِ بہار سے ہے جمالِ بہار نم
کوشش کے باوجود ابھی تک نہ چھپ سکے
زلفوں کے پیچ و خم میں زمانے کے پیچ و خم
صد شکر، توُ نے خواب سے چونکا دیا مجھے
صد شکر، ہو رہا ہے تیرا التفات کم
ذوقِ عبودیت ہے بہر رنگ حیلہ ساز
سجدے کے ساتھ ذہن میں ڈھلنے لگا صنم
تخلیقِ فن کروں گا بعنوانِ ارتقاء
جس ہاتھ میں قلم ہے اسی ہاتھ کی قسم