نہ روکی برق تو نے آشیاں بدلے چمن بدلے
یہ کیسے لے رہا ہے ہم سے اے چرخ کہن بدلے
لہو رستا رھا داغ جگر سے بعد مرنے کے
مرے احباب نے جانے مرے کتنے کفن بدلے
قباے ہجر پہنا کر دیوانوں سے وہ کہتے ھیں
قیامت تک نہ جایں گے تمھارے پیرہن بدلے
وہ محشر میں ملے گا تو یہ اس دم اس سے پوچھوں گا
بتا کس بات کے مجھ سے لیے ھیں جان من بدلے
فہیم مابین عرش و فرش لاکھوں انقلاب آے
مگر اپنا خدا بدلا نہ اپنے پنجتن بدلے