رستے گزر گۓ کبھی رہبر گزر گئے
کتنے نظر کر سامنے منظر گزر گئے
کوئی خبر نہ دی مجھے ، چپ چاپ چل دیے
میری گلی سے یوں وہ ستمگر گزر گئے۔
ہم سوچ ہی رہے تھے غزل کون سی پڑھیں
وہ آدمی کلام سنا کر گزر گئے۔
قسمت کے فیصلے تو کرے رب کی ذات ہی
کتنے مقدروں کے سکندر گزر گئے
طعنہ زنی کی دھار بہت تیز ہوتی ہے
اقصیٰ کے دل سے کتنے ہی خنجر گزر گئے۔