رسم یہ ہے رواج یہ ہے
دستور یہ ہے سماج یہ ہے
جو ہم سے کچھ کچھ بنا کے رکھے
انہی سے اپنی بگاڑ رکھنا مزاج یہ ہے
ہم ہی کو کہتے ہیں سر پھرے ہو
ہم ہی سےسارے گِلے ہیں تم کو
آؤ تم کو اپنی سنائیں
یہ نایاب پتھر تم کو دیکھائیں
کبھی یہ دل تھا
پھر یوں ہوا کہ
محبتوں نے گلے لگایا
موسموں نے ورغلایا
اک مجنوں نے سر چڑھایا
پھر وہ مجنوں دل تک آیا
ہم نے یہ دل اسے تھمایا
پھر یوں ہوا کہ
جب کبھی بھی وہ مجنوں ملے تو
یہ دل یوں دھڑکے کہ دنیا بھی سن لے
سن کہ دھڑکن میں ڈر گئی تھی
یہ انداز اس کو بھلا لگا تھا
کہنے لگا وہ گلے لگا کر
تم کچھ پاگل پاگل سی ہو
اس کی ان باتوں میں
ڈر اپنا میں بھول گئی تھی
چند دن ایسے گزرے ہی تھے
دل کچھ خوش خوش رہتا تھا
پھول مجھے یوں بھانے لگے
باغوں کی طرف مجھے بلانے لگے
پھولوں کا اک باغ ملا جو
اس باغ کے صدقے واری تھی میں
دل پھر سے ویسے ہی دھڑکا تھا
یہ تو وہی احساس تھا
لگا مجھے وہ کچھ پاس ہی تھا
جو مڑ کے دیکھا بہت پاس تھا وہ
اور کہ رہا تھا..کچھ پاگل پاگل لگتی ہو تم
ہاں وہ کہ رہا تھا اور
مخاطب اسکے اک نئی کلی تھی
آؤ تم کو اپنی سنائیں
یہ نایاب پتھر تم کو دیکھائیں
کبھی یہ دل تھا...