اِک بات سُنو ذرا غَور کرو ہم بات پرانی چھیڑیں گے
اُن خوشیوں بھری پیاری سی وہ رات سہانی چھیڑیں گے
اُن پیاروں کی، اُن اپنوں کی، تیری ذات کی اور رشتوں کی
سب مل کے بیٹھا کرتے تھے وہی رام کہانی چھیڑیں گے
اک پل کی وہی دوریاں ہم یاد اب بھی کرتے ہیں
کیا خوبصورت دن تھے وہ ہم واپس ان کو سمیٹیں گے
ہر شخص محبت کرتا تھا اپنوں کی وہ عزت کرتا تھا
اب بھول گئے سب رشتوں کو ہم کیسے واپس موڑیں گے
اک جشن کا سا سماں ہوتا جب ساتھ ہوتے سب رشتے
قدرت کے بنائے رشتوں کو کیسے یہ انساں توڑیں گے
رشتے تو رشتے ہوتے ہیں سو سال بعد بھی اپنے ہیں
چلو عہد کریں سب مل کے ہم، کہ پھر سے رشتے جوڑیں گے