دلوں سے محبت وہ سینوں سے اُلفت
کہاں جا رہی ہے کوئی تو بتا دے
وہ معشوق و عاشق کہاں کھو گئے ہیں
وہ لیلیٰ وہ مجنوں کدھر کو گئے ہیں
کہاں ہے وہ سماّن و آدر بڑوں کا
وہ ایشور کا سایہ سا سرپر بڑوں کا
وہ بھائی سی چاہت وہ مائی سی مورت
کوئی کھوئی بہنا سے ہم کو ملا دے
دھرم جسکا رکشا ، لہو کے عوض ہے
کہاں ہے وہ بھےّا کوئی تو پتہ دے
وہ پیروں پہ جُھکنا وہ سمّان کرنا
لپٹ جائے ہم سے وہ باپو کہاں ہے
وہ ممتا کی مورت جو ہے وجہِ رحمت
وہ مائی کہاں ہے کوئی تو دکھادے
ہے ہم سب کا داتا وہ رب سارے جگ کا
کوئی تو بتادے وہ رہتا کہاں ہے
وہ رشتے کہاں ہیں جو عمرانؔ پوچھے
کوئی اُسکے اپنوں سے آکر ملا دے