Add Poetry

رفاقتوں کے وہ سارے موسم، تیرے قدموں میں پڑے تھے

Poet: محمد اطہر طاہر By: Athar Tahir, Haroonabad

محبتوں کے حسین گلشن کو
جانے کس کی نظر لگی تھی
عداوتوں کی بغاوتوں کی
آگ جیسے بھڑک چکی تھی
وفا نظروں سے گر چکی تھی
خون آنکھوں میں اتر چکا تھ
تو بدگمانی میں گھر چکا تھ
واہموں میں اُتر چکا تھ
الہام جیسے کہ ہو رہے تھے
کہ قیامت ہے آن پہنچی
بہاریں تڑپ رہی تھیں
ہوائیں چیخ رہی تھیں
خزائیں بپھرتی آ رہی تھیں
پتے بلکتے جا رہے تھے
اور تم کے بٹتے جا رہے تھے
پیچھے ہٹتے جارہے تھے
رفاقتوں کے وہ سارے موسم
تیرے قدموں میں پڑے تھے
پھول کلیاں ہاتھ جوڑے
سانس روکے گھٹنے ٹیکے
تیرے آگے جھکی کھڑی تھیں
بیلیں پھولوں کو گود لے کر
تیرے آگے بچھی پڑی تھیں
اشکوں میں ڈوبے تھے شجر
خون سے لتھڑی تھی رہگذر
رو رہی تھیں تتلیاں
باندھ باندھ کے ہچکیاں
تمہیں روک لینے کی آس میں
اک آڑ بن کے حصار میں
ننھے پروں کی زنجیر میں
تیرے گرد منڈلا رہی تھیں
بھنورے بھی چلا رہے تھے
درد سے بلبلا رہے تھے
خوں کے آنسو بہار رہے تھے
تم کو واپس بلا رہے تھے
وہ بھنبھنا کر یہ کہہ رہے تھے
اے شاہِ گلشن اے جانِ گلشن
ہمارے ہستی پر تو رحم کر
ہماری عرضی پر نظرِ کرم کر
تمہیں واسطہ ہے پیار ک
اس اُجڑی پُجڑی بہار ک
پھول کلیوں پہ ترس کھاؤ
بیلوں اور تتلیوں کو بچاؤ
ہمارے ارماں نہ یوں جلاؤ
خدار گُلشن سے نہ یوں جاؤ
قسمیں ساری رو رہی تھیں
ارادے ڈگمگا رہے تھے
درد سے لڑکھڑا رہے تھے
وعدے پاؤں پکڑ رہے تھے
کیسے کیسے منا رہے تھے
تم کے چلتے ہی جا رہے تھے
اور چلتے ہی جا رہے تھے
تیرے وہ بے رحم قدم تھے
روتے بھنوروں بلکتی تتلیوں
کے محبت بھرے دلوں کو
مسلتے ہیں جا رہے تھے
تم کچلتے ہی جا رہے تھے
تم کہ جلاد بن چکے تھے
سرخ پرچم لہرا رہے تھے
میں بے اختیار شرمسار مالی
شکستہ دل لاچار مالی
بقائے گُلشن کا سوالی
سکتے کے عالم میں کھڑا تھ
پتھرائی آنکھوں سے سب تماش
صرف تکتا ہی جا رہا تھ
کوئی فیصلہ بھی نہ کر پا رہا تھ
آگ بجھا دوں یا خود کو جلا دوں
کہ پھول کلیوں کی رکتی سانسیں
میری سانسوں سے جڑی تھیں
پھول پتیوں کی رگوں میں
جو جل رہا تھا میرا لہو تھ
بھنوروں تتلیوں کی التجائیں
وہ میری روح کی تھی صدائیں
تیرے قدموں میں جو پڑے تھے
وہ میرے ہی دل کے ٹکڑے تھے
میرے جذبوں کے عکس تھے
میری نظروں میں حیرت بسی تھی
جدھر دیکھتا ایک عبرت کھڑی تھی
آنکھیں میری دھندلا چکی تھیں
واں شکستہ وعدوں بکھرے سپنوں کی
مردہ جذبوں بے جان قسموں کی
ٹوٹتی اناؤں کی
تڑپتی وفاؤں کی
رد ہوئی دعاؤں کی
ان سنی صداؤں کی
تا حدِ نظر دھول ہی دھول تھی
میرے پیش و پس میں
دھواں ہی دھواں تھ
بے بسی کا تھا یہ عالم
کل تک جو گُلشن کا ناخدا تھ
وہ سانس تک نہ لے پا رہا تھ
آگ بجھاتا یہ کہاں تھا ممکن
میں ہاتھ تک نہ ہلا سکا تھ
اب وقت کافی گزر چکا ہے
اب فکر مجھ کو یہ کھا رہی ہے
ستم تو سارے تم ڈھا چکے ہو
جفائیں ساری آزما چکے ہو
دل کے گُلشن جلا چکے ہو
راکھ تک بھی اُڑا چکے ہو
جہاں تھا گُلشن وہاں ہے کھنڈر
خامشی کا ہے سمندر
جیسے کہ کوئی قبرستاں ہے
نہ دھول ہے اب نہ ہی دھواں ہے
نہ آہیں نہ آنسو نہ کوئی فغاں ہے
پھول پتھر بن چکے ہیں
کلیاں کانٹوں میں بٹ چکی ہیں
تتلیاں بے بال و پر ہیں
سپولوں جیسی لگ رہی ہیں
بھنوروں نے بچھوؤں کا روپ دھار
وہ پھول کلیاں اور تتلیاں
مضطرب ہیں ایک گاہ میں
منتظر ہیں تیری راہ میں
مگر اُن کے تیور میں بدل ہے
اردے اُن کے پُر خطر ہیں
کسی منتقم سے مزاج میں ہیں
کسی بے بس و بے آس ک
اک مشورہ ہے اخلاص ک
کہیں تم پھر سے نہ لوٹ آن
اس طرف کا رخ بھی نہ کرن
کبھی اِدھر تم جو آگئے تو
نشانِ عبرت سے ٹکرا گئے تو
پھول کلیوں اور تتلیوں کے
دکھوں کا سمندر بپھر گیا تو
ارادے اُن کے بتا رہے ہیں
تم سلامت نہ جا سکو گے
مگر یہ بھی طے ہے
تمہیں آنا ہوگ
یہی گاہ تیرا ٹھکانہ ہوگ
سوائے اس کے نہ چارہ ہوگ
ابھی تو سانس باقی ہے
ابھی تو جان باقی ہے
اک امکان باقی ہے
پھول کلیوں تتلیوں کے
دکھوں اور اذیتوں کا مداو
کر سکو تو کر کے دیکھو
مبادا وقت پلٹ جائے
اور پھر بے چارہ مالی ہو
پھر تیری بقا کا سوالی ہو
پھر قیامت آنے والی ہو
ہاتھ میں اُن کے ہو سرخ پرچم
اور تیرا ہاتھ خالی ہو
پھر سے مقتل سج جائیں
پھر سے ہوائیں بین کریں
جہاں تم تھے وہاں تتلیاں ہوں
ہاتھوں میں اُن کے
تیری بجلیاں ہوں
پھر اُن کے قدم ہوں
اور تیرے ہاتھ ہوں
بلائیں  التجائیں تیرے ساتھ ہوں
تیرے سب اوزاروں پر
حکمرانی اُن کی ہو
سب سزائیں تیری ہوں
بد گمانی اُن کی ہو
دکھوں کا مداوا جو کرنا چاہو
ابھی کچھ وقت باقی ہے
صدقے کرو اُن کی نذریں اُتارو
ایک کوشش کرو آکے گلشن سنوارو
محفل سجاؤ سبیلیں لگاؤ
وفاؤں کی مے سے
بھرے جام لاؤ
محبتوں کے پیغام لاؤ

Rate it:
Views: 833
23 Mar, 2016
Related Tags on Sad Poetry
Load More Tags
More Sad Poetry
محبت تجھ سے وابستہ رہے گی جاوداں میری محبت تجھ سے وابستہ رہے گی جاوداں میری
ترے قصہ کے پیچھے پیچھے ہوگی داستاں میری
کریں گی دیکھیے الفت میں کیا رسوائیاں میری
جہاں سنئے بس ان کا تذکرہ اور داستاں میری
قیامت میں بھی جھوٹی ہوگی ثابت داستاں میری
کہے گا اک جہاں ان کی وہاں یا مہرباں میری
بہت کچھ قوت گفتار ہے اے مہرباں میری
مگر ہاں سامنے ان کے نہیں کھلتی زباں میری
قیامت کا تو دن ہے ایک اور قصہ ہے طولانی
بھلا دن بھر میں کیوں کر ختم ہوگی داستاں میری
وہ رسوائے محبت ہوں رہوں گا یاد مدت تک
کہانی کی طرح ہر گھر میں ہوگی داستاں میری
سناؤں اس گل خوبی کو کیوں میں قلب کی حالت
بھلا نازک دماغی سننے دے گی داستاں میری
کہوں کچھ تو شکایت ہے رہوں چپ تو مصیبت ہے
بیاں کیوں کر کروں کچھ گو مگو ہے داستاں میری
اکیلا منزل ملک عدم میں زیر مرقد ہوں
وہ یوسف ہوں نہیں کچھ چاہ کرتا کارواں میری
یہ دل میں ہے جو کچھ کہنا ہے دامن تھام کر کہہ دوں
وہ میرے ہاتھ پکڑیں گے کہ پکڑیں گے زباں میری
پھنسایا دام میں صیاد مجھ کو خوش بیانی نے
عبث پر تو نے کترے قطع کرنی تھی زباں میری
نہ چھوٹا سلسلہ وحشت کا جب تک جاں رہی تن میں
وہ مجنوں ہوں کہ تختے پر ہی اتریں بیڑیاں میری
مشبک میں بھی تیر آہ سے سینے کو کر دوں گا
لحد جب تک بنائے گا زمیں پر آسماں میری
محبت بت کدہ کی دل میں ہے اور قصد کعبہ کا
اب آگے دیکھیے تقدیر لے جائے جہاں میری
بھلا واں کون پوچھے گا مجھے کچھ خیر ہے زاہد
میں ہوں کس میں کہ پرسش ہوگی روز امتحاں میری
تصدق آپ کے انصاف کے میں تو نہ مانوں گا
کہ بوسے غیر کے حصے کے ہوں اور گالیاں میری
مصنف خوب کرتا ہے بیاں تصنیف کو اپنی
کسی دن وہ سنیں میری زباں سے داستاں میری
فشار قبر نے پہلو دبائے خوب ہی میرے
نیا مہماں تھا خاطر کیوں نہ کرتا میزباں میری
قفس میں پھڑپھڑانے پر تو پر صیاد نے کترے
جو منہ سے بولتا کچھ کاٹ ہی لیتا زباں میری
وہ اس صورت سے بعد مرگ بھی مجھ کو جلاتی ہیں
دکھا دی شمع کو تصویر ہاتھ آئی جہاں میری
ہر اک جلسے میں اب تو حضرت واعظ یہ کہتے ہیں
اگر ہو بند مے خانہ تو چل جائے دکاں میری
طریقہ ہے یہی کیا اے لحد مہماں کی خاطر کا
میں خود بے دم ہوں تڑواتی ہے ناحق ہڈیاں میری
پسند آیا نہیں یہ روز کا جھگڑا رقیبوں کا
میں دل سے باز آیا جان چھوڑو مہرباں میری
ہزاروں ہجر میں جور و ستم تیرے اٹھائے ہیں
جو ہمت ہو سنبھال اک آہ تو بھی آسماں میری
یہ کچھ اپنی زباں میں کہتی ہیں جب پاؤں گھستا ہوں
خدا کی شان مجھ سے بولتی ہیں بیڑیاں میری
بنایا عشق نے یوسف کو گرد کارواں آخر
کہ پیچھے دل گیا پہلے گئی تاب و تواں میری
پڑھی اے بزمؔ جب میں نے غزل کٹ کٹ گئے حاسد
رہی ہر معرکہ میں تیز شمشیر زباں میری
 
ناصر
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets