رفتہ رفتہ میرے اعصاب پہ وہ چھانے لگا ہے
میرے وجود میری روح میں سمانے لگا ہے
میری شب کے اجالوں میں میرے دن کے سویروں میں
وہ بن بلائے میری زندگی میں آنے لگا ہے
میرے دیار کی گلیاں اسے پہچان رہی ہیں
کیوں میرا شہر چھوڑ کر وہ کہیں جانے لگا ہے
وہ مجھے جس قدر خود سے جدا کرنا چاہے
اسی قدر وہ میرے دل کو اور بھانے لگا ہے
وہ خواب ہے کہ تخیل فسانہ ہے کہ حق
جو مجھ میں رہ کے مجھے اور یاد آنے لگا ہے
میں نے چاہا کہ مجھ سے میری بات کرتا رہے
وہ مجھے اور ہی قصہ کوئی سنانے لگا ہے
میرے رنج و ملال پہ وہ درد آشنا عظمٰی
کسی ناآشنا کی طرح مسکرانے لگا ہے