رقصاں ضمیرِ دہر میں کیسی امنگ ہے
ہر پَل رُخِ جہاں پہ نئی موجِ رنگ ہے
٭
شاید یہی تضاد قیامت کی جان ہے
فطرت ضعیف ہے مگر انساں جوان ہے
٭
سفینہ جب اپنے سہارے چلا
زمانہ کنارے کنارے چلا
٭
کِس درجہ منحنی نظر آتے ہیں دُور سے
وہ قافلے جو رُک نہ سکیں گے حضور سے
٭
کتنا بلند، کِتنا انوکھا مقام ہے
انسان اِک تسلسلِ شیریں کا نام ہے