رنج کی وہ رمزیں جنہیں ہم گھٹنا سمجھتے ہیں
حسرتوں کے ملال تو انہیں رچنا سمجھتے ہیں
جو دے گیا کبھی اسے بھی قصوروار ٹھہراؤ
ہر درد کو پھر سے کیوں اپنا سمجھتے ہیں
یوں تو خطائیں خطائی سے ہوتی ہیں مگر
سرکشی کو بھی کہیں اک جرم جتنا سمجھتے ہیں
جن کو پتوں کی سرسراہٹ سے شور لگتا ہے
انہیں گوشوں سے پھر پھولوں کے تمنا رکھتے ہیں
میرے آنکھوں کے خواب ہیں آگے کیلئے
جو گذر گیا پل اُسے سپنا سمجھتے ہیں
اس الہامی میں رہکر بھی جان لیا سنتوش کہ
زندگی کے گذار لوگ زندگی کو کتنا سمجھتے ہیں