وہ یاد آتا ہے تو میں رو دیتا ہوں
دور رہ کر تڑپاتا ہے تو میں رو دیتا ہوں
وہ اک شخص میرے سب غم سمیٹ چکا تھا
اب روز نیا زخم لگاتا ہے تو میں رو دیتا ہوں
یہ بارشیں اُسکے پیار میں اچھی لگتی تھیں
وہ منظر یاد آتا ہے تو میں رو دیتا ہوں
میرے آنگن میں بہاریں اُس سے آتی تھیں
اب کوئی بھی موسم آتا ہے تو میں رو دیتا ہوں
ہر چہرے میں وہی چھرہ نظر آتا ہے
پھر اُسے ڈھونڈ نہیں پاتا تو میں رو دیتا ہوں
نہ جانے وہ کیوں آیا تھا لُوٹ جانے کے لئے
ہر آہٹ پر یاد آتا ہے تو میں رو دیتا ہوں
لُوٹ آنے کا وعدہ کر گیا تھا وہ مجھ سے
کوئی اپنے گھر لُوٹ کے آتا ہے تو میں رو دیتا ہوں
وحید، اب شہرویراں میں وہ نہیں آیے گا
ہر لمحا خود کو سمجھاتا ھوں تو میں رو دیتا ھوں