یہ عکس ہے ہمارا جسامت کہاں گئی
یہ شکل آدمی کی سلامت کہاں گئی
فریاد کر رہا ہوں میں جس کے سامنے
اس سایہ قبر کی کرامت کہاں گئی
اس شہر کے ہجوم میں رہبر بھی تھا میرا
اب مقتدی بنےتو امامت کہاں گئی
دریا اتر چکا ہے سمندر کی موج میں
پانی کی باقی ماندہ ندامت کہاں گئی
سنتے ہیں اپنے رکھتے ہیں چھاؤں میں مار کے
میں دھوپ میں پڑا ہوں کہاوت کہاں گئی
طوفاں سے بچ کے میرا سفینہ الٹ گیا
ساحل سے پوچھ بحر امانت کہاں گئی
دھنستا ہی جارہا ہوں محبت کے ساتھ جب
گوہر میں کیا کہوں کہ قدامت کہاں گئی