زخموں کو سی ھم نے خود کو یوں بہلایا ھے
اور ساحلوں کی تمنا میں خود کو یوں جلایا ھے
دکھ کی لکڑی جو سلگی تو دھواں دل میں رہا
یوں زخمی آنکھوں نے خود کو نہ پھر سلایا ھے
وہ دھوپ غم کی جو نکلی اداس چہرے پے
خزاں نے رات کے آنچل میں منہ چھپایا ھے
بدن تیری تمنا میں تھا پاش پاش ھوا
تیرے ستم نے اس وجود کو بڑا ستایا ھے
روح بھٹکتی رہی پھر اندھیری راھوں میں
میرے نصیب نے جی بھر کے مجھے رلایا ھے