روح تو نجانے کب سے چھوڑ چکی ہے مجھے
مگر اب یہ جسم بھی اپنی رہائی مانگ رہا ہے
اس کی وفاؤں کا چرچا تو ہے زمانے میں مگر
دل اس کی محبت سے بے وفائی مانگ رہا رے
تیرے آ جانے سے خوشیاں بھی کھو گئیں بھیڑ میں
اب یہ جیون پہلے سی تنہائی مانگ رہا ہے
تیرے خیال نے ہی سب کچھ بھلا دیا مجھ کو
میرا مرشد اب مجھ سے گدائی مانگ رہا ہے
اس اعتبار نے کر دیا ہے مجھےاندھا
یہ آنسو میری چشم تر سےبینائی مانگ رہا ہے
غم ماضی کے تاریک لمحے مجھے سونے نہیں دیتے
یہ اندھیرا بھی تیری یاد سےجدائی مانگ رہا ہے