روح تو نجانے کب سے

Poet: hira By: hira, gojra

روح تو نجانے کب سے چھوڑ چکی ہے مجھے
مگر اب یہ جسم بھی اپنی رہائی مانگ رہا ہے

اس کی وفاؤں کا چرچا تو ہے زمانے میں مگر
دل اس کی محبت سے بے وفائی مانگ رہا رے

تیرے آ جانے سے خوشیاں بھی کھو گئیں بھیڑ میں
اب یہ جیون پہلے سی تنہائی مانگ رہا ہے

تیرے خیال نے ہی سب کچھ بھلا دیا مجھ کو
میرا مرشد اب مجھ سے گدائی مانگ رہا ہے

اس اعتبار نے کر دیا ہے مجھےاندھا
یہ آنسو میری چشم تر سےبینائی مانگ رہا ہے

غم ماضی کے تاریک لمحے مجھے سونے نہیں دیتے
یہ اندھیرا بھی تیری یاد سےجدائی مانگ رہا ہے

Rate it:
Views: 586
02 Feb, 2015