روح کو آسودگی نہیں ملتی
دل کو کیونکر خوشی نہیں ملتی
یہ بدن بھی تھکا سا رہتا ہے
جان کو زندگی نہیں ملتی
کیا کمی ہے کہ جو نہیں ملتی
کیا خوشی ہے کہ جو نہیں ملتی
کس لئے دل کشی نہیں ملتی
آسودگی کیا ہے یہ خوشی کیا ہے
جان کیا ہے یہ زندگی کیا ہے
جو کسی بھی طرح نہیں ملتی
آرزو ہے طلب ہے جستجو ہے
دل میں پنہاں نگاہ کے روبرو ہے
کیسی حالت ہے یہ کہ ہو کے بھی
ایک جگہ، اک جگہ نہیں ملتی
روح کو آسودگی نہیں ملتی
دل کو کیونکر خوشی نہیں ملتی