روح کو آسودگی نہیں ملتی

Poet: UA By: UA, Lahore

روح کو آسودگی نہیں ملتی
دل کو کیونکر خوشی نہیں ملتی

یہ بدن بھی تھکا سا رہتا ہے
جان کو زندگی نہیں ملتی

کیا کمی ہے کہ جو نہیں ملتی
کیا خوشی ہے کہ جو نہیں ملتی

کس لئے دل کشی نہیں ملتی
آسودگی کیا ہے یہ خوشی کیا ہے

جان کیا ہے یہ زندگی کیا ہے
جو کسی بھی طرح نہیں ملتی

آرزو ہے طلب ہے جستجو ہے
دل میں پنہاں نگاہ کے روبرو ہے

کیسی حالت ہے یہ کہ ہو کے بھی
ایک جگہ، اک جگہ نہیں ملتی

روح کو آسودگی نہیں ملتی
دل کو کیونکر خوشی نہیں ملتی

Rate it:
Views: 344
23 Jun, 2010
More Sad Poetry
ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے یہاں لیکن
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
MAZHAR IQBAL GONDAL