روح کو آسودگی نہیں ملتی

Poet: UA By: UA, Lahore

روح کو آسودگی نہیں ملتی
دل کو کیونکر خوشی نہیں ملتی

یہ بدن بھی تھکا سا رہتا ہے
جان کو زندگی نہیں ملتی

کیا کمی ہے کہ جو نہیں ملتی
کیا خوشی ہے کہ جو نہیں ملتی

کس لئے دل کشی نہیں ملتی
آسودگی کیا ہے یہ خوشی کیا ہے

جان کیا ہے یہ زندگی کیا ہے
جو کسی بھی طرح نہیں ملتی

آرزو ہے طلب ہے جستجو ہے
دل میں پنہاں نگاہ کے روبرو ہے

کیسی حالت ہے یہ کہ ہو کے بھی
ایک جگہ، اک جگہ نہیں ملتی

روح کو آسودگی نہیں ملتی
دل کو کیونکر خوشی نہیں ملتی

Rate it:
Views: 325
23 Jun, 2010