خوابی سلسلا تھوڑا میں نے اسکا ہاتھ پکڑ کر
اس نے میرا ساتھ چھوڑا لوگوں کا قرض سمجھ کر
وابستہ ہے میری زندگی کی سب حسین یادیں اسکی خوشبو سے
رفتہ رفتہ اسکا لوہو بدل رہا ھے کسی اور کی خو شبو سے
برداشت نہیں ہوتا اسکا پامال ہونا
کیا کروں عادت ہے اسکی لذت میں نڈھال ہونا
حسین چہرے کے ساتھ عادت ہے اسکی دلوں سے کھلنا
لرز گیا میں اس وراثتی عادت سے
اب خاموشی اوڑھ لی میں نے اپنا انجام دیکھ کر
اب ہنس رہی ہیں مجھے انجان سمجھ کر
جلانے کے کیے مجھے اس نے اپنا محبوب خریدا ھے
بانہوں میں ہیں دن رات مگر سکون نہیں اسکو
میں نے بہی لکھ لکھ کر دعا بھجھی ھے
جب تھک گیا ظلمت سے تو پھر جوڑا خوابی سلسلہ میں نے
اسکا ہاتھ چھوڑ کر
اس نے بھی میرا ساتھ چھوڑا لوگوں کا قرض سمجھ کر