کھولو ذرا دل کا ورق دیکھو محبت کا نصاب
ہر اک لفظ الجھا ہوا تشنہ ہے روح کی کتاب
کیسے پوچھوں اس سے میں درد و فراق کا سبب
ہر سوال غم میں ڈوبا زخمی زخمی ہے جواب
جدائی کے اس لمحے کا اثر رتجگے کے شور میں
آنسوؤں کا ہے سمندر اور جلتا ہوا ہے آفتاب
کچے دھاگوں کے یہ بندھن وقت کے نشیب و فراز
رسم و رواج کے یہ گنجل جان پے بن گئے عذاب
ہر منزل پہ خیمہ زن ہے خوف میں ڈوبی زندگی
وحشتوں کے اس سفر میں راستہ ہے اک سراب