حادثہ مشقت کا
سلسلہ اذیت کا
سوچتا ہوں لکھ ڈالوں
فیصلہ عدالت کا
صبر میری عادت تھی
جبر اس کی فطرت تھی
دونوں کے تصادم میں
جبر کی رعونت نے
روند ڈالے سب دستور
صبر آزمانے کو
اس اندھیر نگری میں
ایک وحشی قاطر نے
کس قدر شقاوت سے
بے ضمیر شاطر نے
پھول نوچ ڈالے سب
حادثہ تو ہونا تھا
مرجھاگئی چشمِ نم
چھوٹ گیا ہاتھوں سے
صبر کا بھی دامن پھر
آج تک بلکتا ہوں
روزو شب تڑ پتا ہوں
اپنی پتھرائی آنکھوں میں
رفتگاں کی یادوں کو
مند گئی آنکھوں کی
دلخراش باتوں کو
اب سموئے بیٹھا ہوں
آسماں کی گھاتوں کو
جان لیوا صدموں نے
حوصلوں کو پست کیا
زندگی کی راحت سے
ہاتھ دھوئے بیٹھا ہوں
اپنی کشتِ ویراں میں
کلفت و اذیت کے
بیج بوئے بیٹھا ہوں
ختم ہوگا کب یارب
وحشیوں کے ہاتھوں سے
سلسلہ عقوبت کا