روشنی جب بھی لب ہلاتی ہے
رات چپ چاپ بیٹھ جاتی ہے
کوئی آوارگی سے کہہ دے اب
ایک چوکھٹ مجھے بلاتی ہے
گھپ اندھیرے کا فائدہ لے کر
اوس پھولوں پہ بیٹھ جاتی ہے
کل تلک تو ورق ہی اڑتے تھے
اب ہوا حرف بھی اڑاتی ہے
جاگتے ہیں سبھی شجر آذرؔ
دشت میں کس کو نیند آتی ہے