’’لو وہ آئے مسکراتے ہم اسیروں کی طرف‘‘
ڈھال بن جائے گی راحت ، غم کے تیروں کی طرف
روضۂ والاے طیبا ہم بھی دیکھیں یانبی
ہو نگاہِ لطف و رحمت ہم فقیروں کی طرف
امتِ احمد خدایا! روز و شب حیران ہے
بارشِ قہر و غضب کردے شریروں کی طرف
جو درِ خیرالبشر کا بن گیا ادنا غلام
کیوں کرے وہ رُخ بھلا اپنا امیروں کی طرف
جب گھڑی پُرسش کی پیش آئے لحد میں دوستو!
پڑھ اٹھوں نعتِ نبی دیکھوں ، نکیروں کی طرف
مجھ کو حساں ، کافی و محسن رضا سے پیار ہے
دیکھتا ہوں نعت کے اعلیٰ سفیروں کی طرف
مجھ کو مارہرہ سے حاصل فیضِ روحانی ہوا
شوق سے جاؤں نہ کیوں میںاپنے پیروں کی طرف
دور کردیجے مُشاہدؔ سے ہر اک درد و الم
دیکھیے سرکار میرے بہتے نیروں کی طرف