روٹھ کر آنکھ کے اندر سے نکل جاتے ہیں
اشک بچوں کی طرح گھر سے نکل جاتے ہیں
سبز پیڑوں کو پتہ تک نہیں چلتا شاید
زرد پتے بھرے منظر سے نکل جاتے ہیں
اس گزر گاہ محبت میں کہاں آ گیا میں
دوست چپ چاپ برابر سے نکل جاتے ہیں
تم تراشے ہوئے بت ہو کسی محراب کے بیچ
ہم زوائد ہیں جو پتھر سے نکل جاتے ہیں
ساحلی ریت میں کیا ایسی کشش ہے کہ گہر
سیپ میں بند سمندر سے نکل جاتے ہیں
میں ترے ہجر سے نکلوں گا تو مر جاؤں گا
ہائے وہ لوگ جو محور سے نکل جاتے ہیں
آخرش صبح قیامت کی اذاں آتی ہے
اور ہم شام کے لشکر سے نکل جاتے ہیں