روٹھے ہوۓ لمحوں کو منایا نہیں کرتے
جو چھوڑ گیا اس کو بلایا نہیں کرتے
رہ جاتا ہے پھر خوف سدا ان کے دلوں میں
بچپن سے ہی بچوں کو ڈرایا نہیں کرتے
ہو زخم کی گہرائی کا احساس نہ جن کو
ہم زخم کبھی ان کو دکھایا نہیں کرتے
ہم کر کے ہمیشہ ہی بھلا دیتے ہیں نیکی
احسان کبھی اپنا جتایا نہیں کرتے
برباد نہ کر دے تمہیں یہ آہ ہماری
حالات کے ماروں کو ستایا نہیں کرتے
عادت یہ چلی آتی ہے بچپن سے ہماری
ہم چھت پہ کبھی بال سکھایا نہیں کرتے
گلداں میں تر و تازہ گلابوں کی جگہ پر
سوکھے ہوئے پھولوں کو سجایا نہیں کرتے
نرمی بھرے الفاظ سہی بھیک کے بدلے
یوں در سے سوالی کو اٹھایا نہیں کرتے