رکنا پڑے گا اور بھی چلنے کے نام پر

Poet: ندیم احمد By: نعمان علی, Quetta

رکنا پڑے گا اور بھی چلنے کے نام پر
گرتی رہے گی خلق سنبھلنے کے نام پر

پھنستا گیا ہوں اور نکلنے کی سعی میں
آفت مزید آئی ہے ٹلنے کے نام پر

یہ کیا طلسم ہے کہ ابھرنے کے شوق میں
آواز دب گئی ہے نکلنے کے نام پر

دل کا شجر تو اور بھی پلنے کی آڑ میں
مرجھا گیا ہے پھولنے پھلنے کے نام پر

وہ جا چکا ہے اور بدن کے نواح میں
اب جم رہی ہے برف پگھلنے کے نام پر

بدلے گا کوئی روز نئے پن کے شوق میں
یکساں رہے گا کوئی بدلنے کے نام پر

معنی کا سبزہ گاہ نظر آ گیا تو پھر
بھڑکے گا لفظ شعر میں ڈھلنے کے نام پر

Rate it:
Views: 526
28 Jan, 2022