زندہ ہے یادوں میں وہ کہیں نہ کہیں
رہتا ہے سانسوں میں وہ کہیں نہ کہیں
بہے گیا ہے اشکوں میں وہ برسات کی طرح
رہ گئی ہے صورت اسکی کہیں نہ کہیں
رہتا ہے دل میں وہ اک درد کی ماند
ملتی ہے یہ راحت ہمیں کہیں نہ کہیں
چھپ گیا ہے وہ محفل میں جلوہ گر ہو کر
گزری ہے یہ قیامت ہم پہ کہیں نہ کہیں
کرتے ہیں اسے یاد غم تنہائیوں میں
رہتی ہے اسکی ضرورت کہیں نہ کہیں