رہے اسیرِ قفس در قفس بہار میں ہم
مگر حقیر نہ تھے چشمِ روزگار میں ہم
کِسی نے جس میں اُمیدِ سحر دلائی تھی
بھٹک رہے ہیں اسی رات کے غبار میں ہم
وہ ایک درد بنا زندگی کا سرمایہ
جسے پِرو نہ سکے آنسوؤں کے تار میں ہم
وہ آئے بھی تو بگوُلے کی طرح آئے گئے
چراغ بن کے جلے جن کے اِنتظار میں ہم
یہ اور بات کی انجان بن گئے، ورنہ
تیرے خرام کو پہچان لیں ہزار میں ہم
تیرا جمال ہے یا خواب سایۂ گُل میں
پِگھل رہے ہیں اُترتے ہوُئے خمار میں ہم
کبھی بہار بنے اور کبھی شکستِ بہار
ندیم! جم نہ سکے حُسن کے حصار میں ہم