ریاست کے مابیں ہیں لوگ رسالت نہیں ہوتی
ہاں روک مزاحمت یہاں کوئی عدالت نہیں ہوتی
کچھ کوتاہ اس انجمن کا اظہار بھی کرلیں کہ
دل خراشوں کی دل لگی میں کوئی ذلالت نہیں ہوتی
کچھ عیاری چنگل حسرت ناک بھی پھرتے ہیں
روز مادہ طاؤس پر پنجہ کبھی تھکاوٹ نہیں ہوتی
ہر سرکشی پہ پوپ کا جبہ بھی ڈھل گیا ہے
نیم جوشی میں کبھی کبھی شرافت نہیں ہوتی
حق دیرینہ تفتیش سب لشکر کشی تو ہے
یہ بھی دانشی کہ زنا کی کوئی ولادت نہیں ہوتی
چلو اعمال و افعال کا بیاں ترک کرتے ہیں سنتوشؔ
اب شاعر کے قلم سے اتنی مزاحمت نہیں ہوتی