آئی عقل تو ہم نے کیا محترم اُسے
عہد کیا ہے، اب نہ کبھی دیں گے غم اُسے
لڑ جائے زمانے سے وہ ، جو عہدِ وفا ہو
ایک ہی تو آسرا ہے ، تیرا دم اُسے
نباہ نہیں سکتا اگر تو چھوڑ دے اُس کو
کیا دی ہے تو نے اب تلک، تکلیف کم اُسے
جلدی تھی عقدِ ثانی کی، اُس تازی بیوہ کو
مشورہ میں نے دیا، عدت ہے، تھم ، اُسے
جس قدر نحیف اور تھی منحنی سے وہ
اُتنا ہی شوہر ملا، بھاری بھرکم، اُسے
گِری ہے جب سے قوتِ خرید سکے کی
روپیہ نہیں ، پسند ہیں اب، ڈالر درھم اُسے
پھنسائے جِسے دام میں، دے زخمِ محبت
نمک چھڑک کے کہہ دے کہ، لگا مرہم اُسے
اُسکی دوستی و پیار میں ہے دشمنی چھپی
ڈرتا ہوں کیا ہوگا، اگر کیا برہم اُسے
معصوم اور مجبور ہے گمراہ اُسے نہ کر
خودکش بنا نہ باندھ کے، سینے سے بم، اُسے
چھوڑ تو چمن کو میرے، شمسِ حوادث
زمیں میں بیج ڈال دوں، رہنے دے نم اُسے
نڈر تھا وہ کہ سر پہ اُس کا باپ تھا اور اب
ڈرا رہے ہیں، زندگی کے پیچ و خم اُسے
ریاض سیکھ منافقت،رہنا جو ہے یہاں
جو حق کہے تو جینے کب دیتے ہیں ہم اُسے