ایک اک کر کے میرے ارمان سب ریزہ ہوئے
دل میرا خون جگر اور جان سب ریزہ ہوئے
مرغ بسمل کی طرح تڑپا میرا قلب و جگر
تھے تخیل جو میری پہچان سب ریزہ ہوئے
زندہ لاشہ ہوں ڈھانچہ ہوں میں ظاہر کے لئے
میرے جیون کے جو تھے سامان سب ریزہ ہوئے
کیا رہا بس سرد آہوں کے سوا میرے لئے
زندگی کا رنگ ساز و تان سب ریزہ ہوئے
ٹوٹتی جاتی ہیں امیدیں بدل کر یاس میں
میرے جیون کے جو تھے سامان سب ریزہ ہوئے
لمحہ لمحہ زندگی کا ہی قیامت ہے رضا
سانس اپنے جو سراعلان سب ریزہ ہوئے