ہر بار مجھے زخم جدائی نہ دیا کر
اگر تو میرا نہیں تو دکھائی نہ دیا کر
سچ جھوٹ تیری آنکھ سے ہو جاتا ہے ظاہر
قسمیں اٹھا کر صفائی نی دیا کر
معلوم ہی رہتا ہے کہ تو اب مجھ سے گریزاں
پاس آکے محبت کی دہائی نہ دیا کر
اڑ جائیں تو پھر لوٹ کر آتے نہیں واپس
ہر بار پرندوں کو رہائی نہ دیا کر