ہر طرف ہجرتوں کا عالم ہے
میرا ہمزاد مجھ سے برہم ہے
میرے محبوب اب بھی آنکھوں میں
تیری یاد وں کا سبز موسم ہے
رات کٹتی ہے تیری یاد کے ساتھ
دن بھی تیرے خیال میں گم ہے
کوئی بادل برس گیا مجھ پر
میری آنکھوں میں اب جو شبنم ہے
میرے چہرے پہ کرب کا سایہ
درد تنہائی اور ماتم ہے
جس نے جینا سکھا دیا سب کو
کیوں زمانے سے آج برہم ہے
زخم رستا ہے رات بھر وشمہ
یہ وفاؤں کا کیسا مرہم ہے