زخم كھاتے ہیں اشک پیتے ہیں
اس طرح سے بھی لوگ جیتے ہیں
بارشِ درد و غم كے تھمنے تک
ماہ گزرے ہیں سال بیتے ہیں
لُطفِ دردِ جگر بڑھانے كو
مسكراہٹ سے ہونٹ سیتے ہیں
دستِ دلبر ہے جاں ہے مقتل ہے
تُف ہے ُان پہ جو اب بھی جیتے ہیں
كہہ گئے و ہ جو اُن كو كہنا تھا
ہم گریباں كے چاک سیتے ہیں
كیوں گناہگا ر ہوں بھلا مسعود
چشمِ مخمور ہی سے پیتے ہیں