زخمی ہے دل مگر دوا کی طلب نہیں
خوشی گوارا نہیں ہاں کسی سبب نہیں
ملیے مگر ذرا کترا کر ملیں حضور
اب منکرِوفا ہوں وہی باآدب نہیں
مرتے ہیں روز کئی لوگ راہِ وفا میں یوں
اُنکی قبر پر کوئی نام نہیں کتبہ نصب نہیں
میں تھا اور تھی ساتھ تیری یاد مسلسل
کہہ دوں کہ تو ہی ساتھ تھا تو یہ عجب نہیں
ہم کلامی کو کہتے ہیں کبیرہ گناہ
اُنکی نظر جو ڈھائے ستم وہ غضب نہیں
سہہ لوں گا نعمانؔ جیتنے بھی وار ہوں جسم پر
مگر آنکھ سے نہیں دل کی ضرب نہیں