زرا سی بات پہ برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
میں اسے اپنی شہرت کہوں یا رسوائی کہوں
مجھ سے پہلے اس گلی میں میرے افسانے گئے
وحشتی کچھ اس طرح اپنا مقدر ہوئی
ہم جہاں پہنچے ہمارے ساتھ ویرانے گئے
کیا قیامت ہی کہ خاطر کشتہ شب بھی تھے ہم
صبح بھی آئی تو مجرم ہم ہی گردانے گئے