زمزم بھرے خیال سے دھویا ہوا ہے دل
شب بھر کسی کی یاد میں رویا ہوا ہے دل
خوشبو نے مسکرا کے میری لحد پر لکھا
اس خاک کے پردے تلے سویا ہوا ہے دل
جس بے نشاں خیال میں خود کو بھلا دیا
اب تک اسی فریب میں کھویا ہوا ہے دل
کچھ دن میں سنا ہے وہ نیا باغ بنے گا
جذبات کے جس کھیت میں بویا ہوا ہے دل
تم جس کو فقط شعر سمجھ بیٹھے ہو جاناں
لفظوں کی اک لڑی میں پرویا ہوا ہے دل