میرے وطن کی جمیل صبحوں
حسین شاموں
تیری خاطر یہ جان حاضر
تمہاری خاطر جہاں حاضر
نہ ڈر ہے کوئی نہ خوف کوئی
نہ ڈر عدو کا نہ خوف دوئی
جیئں تو نچھاور ہے پیار تجھ پر
مریں تو جان اپنی نثار تجھ پر
نہ تجھ سے شکوہ نہ کوئی شکایت
نہ غرض کوئی، نہ کوئی غایت
دل تمہاری محبت سے معمور لیکن
چہرہ کوئی نہ شاداں نہ فرحاں
اداس آنکھیں ہیں کیسی ویراں
جیسے آسیب سب کو پکڑکے رکھے
سایا جیسے ہر ایک جاں کو جکڑ کے رکھے
مگر وطن کے سارے عزیز لوگوں
زمیں اپنی تو راج اپنا ہی ہوگا
نہ بے بسی بہانہ نہ مجبوریاں گوارا
نہ آسیب کوئی نہ منحوس سایا
مٹی یہ تیری وطن تمہارا
تو غیر کیسے ہے اس پہ چھایا
تم ابنِ علی ہو تم ابنِ عمر
سو حکم تیرا، تم ہی قوی تر
تو اٹھو ایسے کہ محشر اٹھادو
تباہیوں کی ہر ایک محضرمٹا دو