زمیں پاؤں کے نیچے اور سر پہ آسماں ہوتا
ہمارا بھی کہیں اے کاش کوئی آشیاں ہوتا
خود اپنے ہاتھ سے ہم دِل کو پہلوُ سے جدُا کرتے
اگر دِل پہ ہمیں اندیشۂ آہ و فغاں ہوتا
یہاں ہر شے بدلتی ہے مگر بدلا نہ دِل اپنا
بدلتے موسموں پہ کِس طرح دِل کا گماں ہوتا
خدا کا شکر وہ وعدہ نبھانے آ گئے ورنہ
ہمارے دِل کا عالم صوُرتِ رنگِ خزاں ہوتا
ہمارا اِس طرح ملنا تھا قِسمت میں لکھا ورنہ
نجانے ہم کہاں ہوتے نجانے وہ کہاں ہوتا
لپٹ کے ہم اگر دیوار و در سے رو لئے ہوتے
ہماری بے قراری کا کوئی تو رازداں ہوتا
جدایٔ کا سبب پوچھے کویٔ تو کیا بتائیں ہم ؟
وجہ تو مل گئی ہوتی جو کویٔ درمیاں ہوتا
رہی ہے زندگی بھر مجھ کو تو بس ایک ہی حسرت
جو میرا ہمسفر ہے کاش میرا ہم زباں ہوتا
مرے دل کی کوئی گر ایک بھی حسرت نکل جاتی
نہ ٹھہرا آج دِل میں حسرتوں کا کارواں ہوتا