زمیں مہنگی پڑی ہم کو یہ گھر مہنگا پڑا ہم کو
کوئی اذن سفر شاید مہنگا پڑا ہم کو
جسے مانگا تھا ہم نے وہ کبھی بھی مل نہ پایا
یہ لگتا ھے دعاؤں کا اثر مہنگا پڑا ہم کو
ہوئی جب سے شناسائی ہماری ان ادیبوں سے
سخن سے آشنائی کا ہنر مہنگا پڑا ہم کو
کوئی جذبہ سمجھ نہ آیا ہائے اس کی محبت کا
کسی کی سوچ کا ذوق نظر مہنگا پڑا ہم کو
نہیں چھپنے دیا ہوتا یہ فن ادبی رسائل میں
کہ اب شہرت کا درجہ کس قدر مہنگا پڑا ہم کو
بھرے اس شہر میں راشد کوئی ہم کو بھی پسند آیا
گلی مہنگی پڑی اس کی وہ در مہنگا پڑا ہم کو