یہ راز نہیں معلوم زندگی کیا ہے
چشم حیراں یہ تماشا کیا ہے
چل چلاؤ لگا ہے ازل سے
دنیا میں کوئی ٹھہرا کیا ہے
اک حکم سے ہے حرارت زندگی
ورنہ مٹی کے بت میں رکھا کیا ہے
صبح نکلتا ہے شام ڈوبتا ہے
جانے سورج کی تمنا کیا ہے
جینا اور آخر پھر جینا ہے
عقل حیراں ہے یہ مرنا کیا ہے
میدان حشر میں گنہگار کھڑے ہیں
جرم دنیا کی جانے سزا کیا ہے