آنکھ سے ہوں دور دل سے اتر جاؤں میں
وقت کے ساتھ مدھم پڑ جاؤں میں
ضبط تو لازم ہے پر سا تھ ہمت بھی
راہ زیست میں بہت کانٹے بھی
زندگی ہے تیری بخشی ہوئی
قسمت بھی تیری عطا کی ہوئی
ڈوبتے ڈوبتے ساحل کو چھولوں میں
بندھ آنکھوں کے دریچے کھول دوں میں
باد صبا کا کوئی جھونکا پھر چھولے مجھے
زندگی پھر نئے ترنگ سے چمٹ جائے مجھے
پھر جشن بہاراں مناؤں میں
کاروان سفر میں نئی شمع جلاؤں میں