اس قدر بھی اپنی رسوائی نہ تھی
زندگی اتنی بھی تنگ آئی نہ تھی
دل کبھی ایسے لہو رویا نہ تھا
اپنی حالت پے ہنسائی نہ تھی
صبح کے سورج نے پھولوں سے کہا
اوس کی ہے زندگی پائی نہ تھی
سخت مشکل ہوگا سلجھانا تجھے
جب نہ ہو کچھ بھی تو دھوکا کھائی نہ تھی
نوک ِ مژگاں پر ٹھہر جاتے تھے اشک
قہقہوں میں بھی توانائی نہ تھی
پھر دھڑکتا ہے پرانی طرز کا
ذہن کی اس دل نے منوائی نہ تھی
کو بہ کو ،قریہ قریہ شہر شہر
شہر میں کل تک یہ مہنگائی نہ تھی
اپنی، رسوائی میں کیا چلتی ہے وشمہ
چاہنے والا بھی اچھا ئی نہ تھی