زندگی اک ایسی دوشیزہ ہے جو
چند اوباشوں کے نرغے میں پھنسی
آنے والے وقت کے طوفان کا
پیشگی ادراک کر لیتی ہے پر
کچھ بھی کر سکتی نہیں
آنے والے وقت کے طوفان کا
خوف اس کی قوتوں کو صلب کرلیتا ہے ہوں
بھاگنا چاہے بھی تو
پائوں اٹھتے ہی نہیں
احتجاجا چیخنا چاہے بھی تو
ہونٹ ہلتے ہی نہیں
ڈال سے اٹکے ہوئے اکزرد پتے کی طرح
کانپتی رہتی بس
آخرش برباد ہو جاتی ہے وہ
زندگی اک ایسی دوشیزہ ہے جو