زندگی بھی اب اک سزا سے کم نہیں
دکھ تو خیر آپ کی دعا سے کم نہیں
آج کی اس جھوٹی و فریبی دنیا میں
سچ بولنا بھی کسی خطا سے کم نہیں
کیا حال ہوا پھر فرعون و نمرود کا
کہتے تھے جو کہ وہ خدا سے کم نہیں
پہلے ہی امتحاں میں جاں لےلی تُونے
تیری ابتدا بھی کسی انتہا سے کم نہیں
مر کے ہوئی نصیب تیری یاد سے نجات
دیا زہر تیرا کسی دوا سے کم نہیں
لوگ جانتے ہیں مجھے اک قطرہ سا شاکر
سوچیں تو میں اک دریا سے کم نہیں