زندگی بے امان ہو جیسے
اک کڑا امتحان ہو جیسے
جھومتا ہے یہ گھر کا گھر میرا
کوئی گرد مکان ہو جیسے
ابر و باد فلک سی زلفیں ہیں
دھوپ میں سائبان ہو جیسے
دل پہ بربادیوں کا ڈیرہ ہے
گاؤں کوئی ویران ہو جیسے
دیکھتا ہے وہ آنکھ بھر کے مجھے
اس کو میرا ہی دھیان ہو جیسے
اف نگاہیں اور آنکھوں کے حلقے
تیر ہو اور کمان ہو جیسے
مانگتے ہیں وہ دل کے بدلے زر
ان کی دل کی دکان ہو جیسے