جاں پہ اک قرض تھا اتار گیا
زندگی تجھ سے میں تو ہار گیا
اے عروس خیال یہ تو بتا
کون گیسو ترے سنوار گیا
جب سے الجھا ترے خیالوں میں
رات دن کا مرے شمار گیا
دید اسکی نہ آج ہو پائی
آج کا دن بھی سوگوار گیا
ظلم صیاد کا ذرا دیکھو
تیر سینے کے آرپار گیا
اس کو حاصل کوئی دوام نہیں
گل کی ہستی کا اعتبار گیا
اسکی جھولی میں پھول تھے سارے
مجھ کو اختر جو دے کے خار گیا