زندگی تو ابھی باقی ہے پھر
کیوں تو اداس ہے
کیوں حد سے زیادہ
پریشان ہے
کیوں آنکھیوں سے
اشک بہاتی ہے
کیوں امیدوں کی
شمع بجھاتی ہے
کیوں اپنے یقین کو
ڈگماگتی ہے
کیوں جینے سے
گھبراتی ہے
کیوں چلتے چلتے
تھک جاتی ہے
کیوں ٹوٹ کے
بکھر جاتی ہے
کیوں گزرے وقت کو
یاد کر ے خود کو تڑپاتی ہے
بیت گیا جو کل کیوں نہیں
تو اسے بھول پاتی ہے
کیوں خود سے
خود کو چھپاتی ہے
کیوں تنہائیوں کو
گلے سے لگاتی ہے
کیوں رشتے ناتو
سے دامن چھڑاتی ہے
زندگی تو ابھی باقی ہے