زندگی تو سمٹ رہی ہے کر کے اپنا کاروبار
چند لمحے اور مانگیں گے خدا سے ہم ادھار
خاموشیوں کا پہر تھا اور تھی فضا بھی بے سکوں
سادگی سے ہم لٹے ہیں رات کو پھر ایک بار
سسکیوں کا ہے الاؤ اور شام کی ہیں تاریکیاں
آنسوں کی اک لڑی ہے اور بیتے لمحے سوگوار
فصل گل ہم نے جو کاٹی زخمی زخمی ہاتھوں سے
پھولوں کے دل بھی خوں کئے اور ہر کلی تھی بیقرار
کیسی روشن تھیں فضائیں جب جگنوؤں کا ساتھ تھا
اب غموؤں کی سیج ہے اور موت کا ہے انتظار