زندگی جُرمِ محبّت کی سزا ہو جیسے
اور یہ جُرم فقط میں نے کیا ہو جیسے
وہ مجھے دیکھ کے چُپ چاپ کھڑے ہیں ایسے
میری خاموشی نے کچھ اُن سے کہا ہو جیسے
دل کو تھامے ہوئے یوں پاس سے گزرا کوئی
حال کچھ اُس نے میرے دل کا سنا ہو جیسے
میں نےدیکھے ہیں میری جان وہ سنّاٹے بھی
سانس لینا بھی جہاں ایک صدا ہو جیسے
تُو نے دیکھا ہے کبھی صبح کا جھلمل تارہ
دل میرا غم میں تیرے ڈوب رہا ہو جیسے
زیرِ لب یاد ہے مجھ کو وہ تبسّم تیرا
غنچہءِ دل کے چٹکنے کی صدا ہو جیسے
سن کے یہ میری غزل آپ تویوں خوش ہیں جناب
جامِ گلرنگ کہیں مفت پیا ہو جیسے
تیری آنکھوں کی چمک سے مجھے محسوس ہوا ہے
دل تیرے نور سے میرا بھی بنا ہو جیسے
خشمگیں نظروں سے اُس کی مجھے لگتاہے وسیم
آئینہ دل کا میرے ٹوٹ گیآہو جیسے