زندگی جس قدَر بچی ہو گی
شورشِ ہجر میں کٹی ہو گی
عیش انگیز کے زمانے ہیں
دل فگاری چلی گئی ہو گی
اتنا ہی وہ پسند آئے گا
جتنی خود میں کمی ہوئی ہو گی
سوچتا ہوں وہ مہ جبیں تھی کون
جو مجھے بھول ہی چکی ہو گی
لیا جائے اگر حسابِ وفا
تب اُسے موت پڑ رہی ہو گی
دیکھ کر خوش اُسے جلے جب ہم
اندروں ہر خوشی سڑی ہو گی
ناگہاں اُس گلی گئے ہوں گے
دھوم پھر شہر میں مچی ہو گی
ضربِ فرقت نہ تھی شدید اتنی
جتنی دل میں کسک اٹھی ہو گی
وہ تپش تھی کہ جل گیا سینہ
لُو ترے ہجر کی چلی ہو گی