زندگی جو تھی وہ بھی ہاتھ سے گئی
دکھ یہ ہے کہ وہ اصل حقدار سے گئی
ناکامی اور شکست کی یہ بات نہ کر
اب تو قسمت بھی اپنے ہاتھ سے گئی
میں سوچتا تھا کچھ اور ہوتا تھا کچھ
یہی بات ہے جو میرے تصورات سے گئی
پہلے تم تھے اور تمھارے بعد تھے قافلے
افسوس کہ اب وہ ٹھاٹھ باٹھ بھی گئی
یہ سب دیکھ کر میں بھی رنجیدہ ہو گیا
قسمت کی کشتی بھی اپنے ہاتھ سے گئی
دستور زندگی ہے یہی ہونا تھا ایک دن
بات جو کرنی تھی وہ اظہار سے گئی
عمر جوانی میں زندگی ختم ہوئی
حمزہ ہوا بے بس روح جسم سے گئی